شہد کی مکھی
عربی میں شہد کی مکھی کو “نحل” کہتے ہیں۔ جو عام مکھی یعنی ذباب سے بڑی ہوتی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ایک سورۃ نازل فرمائی جس کا نام سورۃ نحل ہے۔ اس سورۃ میں شہد اور شہد کی مکھی کے فضائل اور اس کے فوائد ومنافع کا تذکرہ فرمایا ہے جو قابلِ ذکر ہے۔ اس مکھی کی طرف وحی کرنے سے مراد فطری اشارہ یا تعلیم ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہر جاندار کی جبلت میں ودیعت کر رکھی ہے جیسے کہ بچہ پیدا ہوتے ہی ماں کی چھاتیوں کی طرف لپکتا ہے تاکہ وہاں سے اپنے لیے غذا حاصل کر سکے۔ حالانکہ اس وقت اسے کسی بات کی سمجھ نہیں ہوتی۔ یہ اسی فطری وحی کا اثر ہے کہ شہد کی مکھیاں اپنے لیے ایسا چھتا یا اپنا گھر بناتی ہیں۔ جسے دیکھ کر انسا ن حیران رہ جاتاہے اورایسامعلوم ہوتا ہے کہ کسی ماہر انجنیئرنے اس کی ڈیزائننگ کی ہو۔
وان فریش وہ شخص تھا کہ جس کو 1973ء میں شہد کی مکھیوں کے متعلق تحقیق کرنے پر نوبل پرائز دیا گیا تھا ،شہد کی مکھی کوجب کوئی نیا باغ یا پھول ملتا ہے تو واپس جا کر اپنی دوسری مکھیوں کو بھی اس کے متعلق صحیح سمت اور نقشے سے آگاہ کرتی ہے،جس کو مکھی کا ناچ یا " Bee Dance''کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔مکھی کی یہ نقل وحرکت اوراپنی دوسری کارکن مکھیوں کو اطلاعات کی فراہمی کا ثبوت سائنسی طور پر تصویروں اور دوسرے طریقوں کو استعمال کرتے ہوئے دریافت کر لیا گیا ہے۔قرآن مجید میں شہد کی مکھی کی جنس مونث بیان کی گئی ہے۔جو شہد کو اکٹھا کرنے کے لیے گھر سے نکلتی ہے۔دوسرے الفاظ میں سپاہی یا کارکن مکھی ایک مادہ مکھی ہوتی ہے۔
ترجمہ :
اور تیرے رب نے شہد کی مکھی کو حکم دیا کہ پہاڑوں میں گھر بنا اور درختوں میں اور چھتوں میں پھر ہر قسم کے پھل میں سے کھا پھر اپنے رب کی تجویز کردہ راہوں پرچل ، ان کے پیٹ سے پینے کی چیز نکلتی ہے جس کے رنگ مختلف ہیں اس میں لوگوں کے لیے شفا ہے، بے شک اس میں ان لوگوں کے لیے نشانی ہے جو سوچتے ہیں۔
اور تیرے رب نے شہد کی مکھی کو حکم دیا کہ پہاڑوں میں گھر بنا اور درختوں میں اور چھتوں میں پھر ہر قسم کے پھل میں سے کھا پھر اپنے رب کی تجویز کردہ راہوں پرچل ، ان کے پیٹ سے پینے کی چیز نکلتی ہے جس کے رنگ مختلف ہیں اس میں لوگوں کے لیے شفا ہے، بے شک اس میں ان لوگوں کے لیے نشانی ہے جو سوچتے ہیں۔
شہد کی مکھیا ں خط استوا کی حدت سے لے کر برفانی میدانوں کی برودت تک میں زندہ رہ سکتی ہیں۔مگر ان کے چھتے کا اندرونی درجہ حرارت 34سینٹی گریڈکے قریب رہتاہے۔اگرا س پاس کا موسم 49سینٹی گریڈ تک بھی گرم ہو جائے تو چھتا متاثر نہیں ہوتا۔ٹھنڈک میں زیادتی کی وجہ سے ذخیرہ پر گزر اوقات اور خوشگوار موسم کا انتظار کرتی ہیں۔ ایک چھتا سال میں تقریباً500 کلو گرام ماء الحیات حاصل کرکے اس سے شہد تیار کرتا ہے، چھتوں میں شہد کے علاوہ موم اور پولن کے دانے بھی ذخیر ہ کیے جاتے ہیں۔ پھولوں کی پتیوں کے درمیان ان کے تولیدی اعضا ہوتے ہیں۔مکھی جب اس کو چوسنے کے لیے کسی پھول پر بیٹھتی ہے تو نر پھولوں کے تولید ی دانے اس کے جسم کو لگ جاتے ہیں جن کو Pollen کہتے ہیں۔ پولن کے دانے لگی مکھی جب دوسرے پھول پر بیٹھتی ہے تو اس کے نسوانی حصے ان دانوں کو اپنی جانب کھینچ کر باروری حاصل کرتے ہیں۔ اس طرح مکھی کی اڑان زراعت کے لیے ایک نہایت مفید خدمت سرانجام دیتی ہے۔اور کہا جاتاہے کہ امریکہ میں پیدا ہونے والی 90 اقسام کی زرعی پیداوار کی ترویج اور باروری صرف شہد کی مکھی کی مرہون منت ہے۔ پولن کے جو دانے بچ جاتے ہیں ان کو چھتے میں لے جا کر کارکنوں کی خوراک میں لحمی اجزا کے طور پر شامل کر دیا جاتاہے۔ان کی کچھ مقدار شہد میں بھی موجود ہوتی ہے۔
شہد کی مکھی، مکھی کے خاندان کا ذیلی مجموعہ ہیں، جو شہد کی پیداوار اور ذخیرہ کرنے، سالانہ موم کے گھونسلا بنانے کی وجہ سے ممتاز ہیں۔ یہ اپنے قبیلہ کی غیر تباہ شدہ باقی رکن بچی ہیں۔ ان کی سات نوع ہیں اور 44 ذیلی نوع ہیں۔ "شہد کی مکھی" مکھیوں کی بیس ہزار قسموں میں سے صرف چند ہیں۔ پاکستان میں شہد کی تقریباً 4 اقسام کی پائی جاتی ہیں۔
شہد کی مکھی کی جسمانی ساخت :
اگر ہم شہد کی مکھی کا بغور جائزہ لیں تو شہد کی مکھی کو تین حصوں میں تقسیم پائے گئے۔ سر، سینہ اور پیٹ۔
شہد کی مکھی کا سر :
یہ حصہ آنکھوں، مونچھوں اور منہ کے اعضاءپر مشتمل ہوتاہے۔ سر سینے سے الگ ہے اور حرکت کر سکتا ہے۔ سر پر دو مرکب آنکھیں ہیں۔ ہر مرکب آنکھ چھوٹی چھوٹی آنکھوں کا مجموعہ ہوتی ہے۔ ملکہ کی ایک مرکب آنکھ میں 5000، نکھٹو کی 6000 اور کارکن مکھی کی ایک مرکب آنکھ میں 13000 چھوٹی چھوٹی آنکھیں ہوتی ہیں۔ مکھی سفید، کالی،نیلی اور پےلے رنگ کو پہچان سکتی ہے۔ اس کے علاوہ تین سادہ آ نکھیں سر کے درمیان اور اوپر ہوتی ہیں جن سے یہ ساکن اور نزدیکی چیزوں کو دیکھ سکتی ہے۔ آ نکھوں کے نیچی دو مونچھیں ہوتی ہیں۔ جو ٹٹولنے، سونگھنے اور محسوس کرنے کاکرتی ہیں۔ سر کے نیچی منہ اور زبان ملکر سونڈ نما شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ مکھی اسی سونڈ (Proboscis) سے پھولوں کا رس جوستی ہے۔ نر مکھیوں (نکھٹو) میں زبان نہیں ہو تی لہذا یہ رس نہیں چوس سکتیں۔ لعاب اوررائل جیلی (دودھ) پیدا کرنے والے غدود سر میں ہوتے ہیں۔
یہ حصہ آنکھوں، مونچھوں اور منہ کے اعضاءپر مشتمل ہوتاہے۔ سر سینے سے الگ ہے اور حرکت کر سکتا ہے۔ سر پر دو مرکب آنکھیں ہیں۔ ہر مرکب آنکھ چھوٹی چھوٹی آنکھوں کا مجموعہ ہوتی ہے۔ ملکہ کی ایک مرکب آنکھ میں 5000، نکھٹو کی 6000 اور کارکن مکھی کی ایک مرکب آنکھ میں 13000 چھوٹی چھوٹی آنکھیں ہوتی ہیں۔ مکھی سفید، کالی،نیلی اور پےلے رنگ کو پہچان سکتی ہے۔ اس کے علاوہ تین سادہ آ نکھیں سر کے درمیان اور اوپر ہوتی ہیں جن سے یہ ساکن اور نزدیکی چیزوں کو دیکھ سکتی ہے۔ آ نکھوں کے نیچی دو مونچھیں ہوتی ہیں۔ جو ٹٹولنے، سونگھنے اور محسوس کرنے کاکرتی ہیں۔ سر کے نیچی منہ اور زبان ملکر سونڈ نما شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ مکھی اسی سونڈ (Proboscis) سے پھولوں کا رس جوستی ہے۔ نر مکھیوں (نکھٹو) میں زبان نہیں ہو تی لہذا یہ رس نہیں چوس سکتیں۔ لعاب اوررائل جیلی (دودھ) پیدا کرنے والے غدود سر میں ہوتے ہیں۔
شہد کی مکھی کا سینہ :
۔ شہد کی مکھی میں پروں کے دو جوڑے ہوتے ہیں۔ سینے کے اوپر دونوں طرف ایک بڑا اور ایک چھوٹا پر ہوتا ہے جو آپس میں ہک (Humuli) کی وجہ سے جڑے ہوتے ہیں۔ سینے کے پچھلے حصے پر ٹانگوں کے تین جوڑے ہوتے ہیں۔ جن میں سب سے پچھلی ٹانگیں پہلی دو سے لمبی اور بڑی ہوتی ہیں۔ اس میں پولن باسکٹ ہوتی ہے۔ کارکن مکھیاں اگلی ٹانگوں کی مدد سے اپنے سر اور مونچھوں کی مدد سے پولن اتار کر پولن باسکٹ میں جمع کرتی ہیں۔ یہ پولن شہد کی مکھیوں کی افزائش نسل کے دوران پروٹین مہیا کرتی ہیں۔
۔ شہد کی مکھی میں پروں کے دو جوڑے ہوتے ہیں۔ سینے کے اوپر دونوں طرف ایک بڑا اور ایک چھوٹا پر ہوتا ہے جو آپس میں ہک (Humuli) کی وجہ سے جڑے ہوتے ہیں۔ سینے کے پچھلے حصے پر ٹانگوں کے تین جوڑے ہوتے ہیں۔ جن میں سب سے پچھلی ٹانگیں پہلی دو سے لمبی اور بڑی ہوتی ہیں۔ اس میں پولن باسکٹ ہوتی ہے۔ کارکن مکھیاں اگلی ٹانگوں کی مدد سے اپنے سر اور مونچھوں کی مدد سے پولن اتار کر پولن باسکٹ میں جمع کرتی ہیں۔ یہ پولن شہد کی مکھیوں کی افزائش نسل کے دوران پروٹین مہیا کرتی ہیں۔
شہد کی مکھی کا پیٹ :
شہد کی مکھی کا یہ سب سے نرم حصہ ہوتا ہے جو 7حصوں سے ملکر بنا ہوتا ہے۔ پیٹ کے نیچے آٹھ باریک سوراخ ہوتے ہیں۔ جن میں سے موم نکلتا ہے۔ جو تیل کی طرح پتلا ہوتاہے مگر ہوا لگنے سے جم جاتا ہے۔ پیٹ کے آخری حصے میں زہر کی تھیلی ہوتی ہے۔ جو سوئی نما ڈنگ سے جڑا ہوتا ہے۔ جب شہد کی مکھی انسان کو کاٹتی ہے۔ تو سوئی جسم میں داخل ہو جاتی ہے اور تھیلی پیٹ سے الگ ہو جاتی ہے۔ یوں جسم کا ایک حصہ الگ ہونے کی وجہ سے مکھی چند گھنٹے میں مر جاتی ہے۔
شہد کی مکھی کا یہ سب سے نرم حصہ ہوتا ہے جو 7حصوں سے ملکر بنا ہوتا ہے۔ پیٹ کے نیچے آٹھ باریک سوراخ ہوتے ہیں۔ جن میں سے موم نکلتا ہے۔ جو تیل کی طرح پتلا ہوتاہے مگر ہوا لگنے سے جم جاتا ہے۔ پیٹ کے آخری حصے میں زہر کی تھیلی ہوتی ہے۔ جو سوئی نما ڈنگ سے جڑا ہوتا ہے۔ جب شہد کی مکھی انسان کو کاٹتی ہے۔ تو سوئی جسم میں داخل ہو جاتی ہے اور تھیلی پیٹ سے الگ ہو جاتی ہے۔ یوں جسم کا ایک حصہ الگ ہونے کی وجہ سے مکھی چند گھنٹے میں مر جاتی ہے۔
پاکستان میں شہد کی مکھیوں کی اقسام :
پاکستان میں چار قسم کی شہد کی مکھیاں پائی جاتی ہیں۔
چھوٹی مکھی (Apis Florea) :
بناوٹ کے لحاظ سے یہ سب سے چھوٹی مکھی ہے جو سطح سمندر سے 600 میٹر بلند مقامات پر ہوتی ہے۔ اس مکھی کی پہچان یہ ہے کہ کارکن مکھی کے پیٹ پر سیاہ اور پیلی دھاریاں نمایاں ہوتی ہیں اور مکھی کے جسم پر بالوں کا رنگ بھوراہوتاہے۔ یہ ہاتھ کی ہتھیلی کی طرح کا چھتہ جھاڑیوں کی شاخوں، سوکھی لکڑیوں کے گٹھوں وغیرہ میں بناتی ہیں۔ یہ بھی آزاد رہتی ہیں۔لہذا ان کو مگس بانی کے ڈبو ں میں نہیں پالا جاسکتا۔
بناوٹ کے لحاظ سے یہ سب سے چھوٹی مکھی ہے جو سطح سمندر سے 600 میٹر بلند مقامات پر ہوتی ہے۔ اس مکھی کی پہچان یہ ہے کہ کارکن مکھی کے پیٹ پر سیاہ اور پیلی دھاریاں نمایاں ہوتی ہیں اور مکھی کے جسم پر بالوں کا رنگ بھوراہوتاہے۔ یہ ہاتھ کی ہتھیلی کی طرح کا چھتہ جھاڑیوں کی شاخوں، سوکھی لکڑیوں کے گٹھوں وغیرہ میں بناتی ہیں۔ یہ بھی آزاد رہتی ہیں۔لہذا ان کو مگس بانی کے ڈبو ں میں نہیں پالا جاسکتا۔
بڑی مکھی (Apis Dorsata) :
بڑی جسامت کی وجہ سے اسے بڑی مکھی کہا جاتا ہے۔ عام طور پر پاکستان میں اسکو ڈومنا کہا جاتا ہے۔ یہ سطح سمندر سے 1100 میٹر بلندی پر پائی جاتی ہے۔ یہ زمین سے تقریبا 3 میٹر اونچے درختوں پر چھتے بناتی ہے۔ بعض اوقات ایک ہی درخت پر3-4 یا زائد چھتے لگے ہوتے ہیں۔ ایک چھتے کا سائز 2 میٹر طول اور عموما لمبائی 1 میٹر تک ہو سکتی ہے۔ اس مکھی کے لیے چھتے میں کارکن اور نکھٹو کے لاروا یا بروڈ خانوں کی جسامت ایک جیسی ہوتی ہے۔ ان کو ڈبوں میں نہیں پالا جاسکتا کیونکہ یہ کھلی فضا میں رہنا پسند کرتی ہیں۔
بڑی جسامت کی وجہ سے اسے بڑی مکھی کہا جاتا ہے۔ عام طور پر پاکستان میں اسکو ڈومنا کہا جاتا ہے۔ یہ سطح سمندر سے 1100 میٹر بلندی پر پائی جاتی ہے۔ یہ زمین سے تقریبا 3 میٹر اونچے درختوں پر چھتے بناتی ہے۔ بعض اوقات ایک ہی درخت پر3-4 یا زائد چھتے لگے ہوتے ہیں۔ ایک چھتے کا سائز 2 میٹر طول اور عموما لمبائی 1 میٹر تک ہو سکتی ہے۔ اس مکھی کے لیے چھتے میں کارکن اور نکھٹو کے لاروا یا بروڈ خانوں کی جسامت ایک جیسی ہوتی ہے۔ ان کو ڈبوں میں نہیں پالا جاسکتا کیونکہ یہ کھلی فضا میں رہنا پسند کرتی ہیں۔
یورپی مکھی (Apis Mellifera) :
یہ تمام براعظموں کی مختلف ممالک میں پائی جاتی ہے۔ یہ نرم مزاج، اپنی عادات کو ڈھالنے والی اور ذیادہ انڈے دینے کی وجہ سے جدید مگس بانی کی ڈبوں میں پالی جاتی ہیں۔ پاکستان میں آسٹریلیا اور روس سے 1977میں یہ مکھیاں درآمد کیں اور اب تقریبا 400,000 لاکھ کالونیاں مختلف جگہوں پر پالی جا رہی ہیں۔ مائیٹ اور دیگر بیماریوں کے لیے اس میں قوت مدافعیت کم ہوتی ہے۔
یہ تمام براعظموں کی مختلف ممالک میں پائی جاتی ہے۔ یہ نرم مزاج، اپنی عادات کو ڈھالنے والی اور ذیادہ انڈے دینے کی وجہ سے جدید مگس بانی کی ڈبوں میں پالی جاتی ہیں۔ پاکستان میں آسٹریلیا اور روس سے 1977میں یہ مکھیاں درآمد کیں اور اب تقریبا 400,000 لاکھ کالونیاں مختلف جگہوں پر پالی جا رہی ہیں۔ مائیٹ اور دیگر بیماریوں کے لیے اس میں قوت مدافعیت کم ہوتی ہے۔
پہاڑی مکھی (Apis Cerana) :
یہ مکھی پاکستان کے پہاڑی اور دامن کوہ کے علاقوں میں جنگلی اور پالتو حالت میں پائی جاتی ہی یہ اپنے چھتے کھوکھلے تنے، کچی مٹی کے گھروندے یا دیواروں کی بڑی دارڑوں میں بناتی ہیں۔ یہ مکھیاں نحلی سریش کم تیار کرتیں ہیں۔ جسکی وجہ سے مومی کیڑے انہیں کافی نقصان پہنچاتے ہیں۔ ان کو جدید ڈبوں میں پالاجا سکتا ہے۔ اس میں بےماریوں اور مائیٹ کے خلاف قدرتی قوت مدافعت ہوتی ہے۔
یہ مکھی پاکستان کے پہاڑی اور دامن کوہ کے علاقوں میں جنگلی اور پالتو حالت میں پائی جاتی ہی یہ اپنے چھتے کھوکھلے تنے، کچی مٹی کے گھروندے یا دیواروں کی بڑی دارڑوں میں بناتی ہیں۔ یہ مکھیاں نحلی سریش کم تیار کرتیں ہیں۔ جسکی وجہ سے مومی کیڑے انہیں کافی نقصان پہنچاتے ہیں۔ ان کو جدید ڈبوں میں پالاجا سکتا ہے۔ اس میں بےماریوں اور مائیٹ کے خلاف قدرتی قوت مدافعت ہوتی ہے۔
شہد کی مکھی کا خاندانی تنظیم میں رہنا :
شہد کی مکھیاں اپنے لیے ایسا چھتا یا اپنا گھر بناتی ہیں۔ جسے دیکھ کر انسا ن حیران رہ جاتاہے اورایسامعلوم ہوتا ہے کہ کسی ماہر انجنیئرنے اس کی ڈیزائننگ کی ہو۔ اس چھتے کا ہر خانہ چھ پہلو والا یعنی مسدس ہوتا ہے جس کے تمام ضلعے مساوی لمبائی کے ہوتے ہیں اور اس طرح ایک دوسرے سے متصل یا جڑے ہوئے ہوتے ہیں کہ ان میں کہیں خالی جگہ کی گنجائش نہیں رہتی۔ انہیں خانوں میں مکھیاں شہد کا ذخیرہ کرتی ہیں اور بیرونی خانوں پر پہرہ دار مکھیا ں ہوتی ہیں۔ جو اجنبی مکھیوں یا کیڑوں کو ان خانوں میں گھسنے نہیں دیتیں۔ شہد کی مکھیاں ایک ہی خاندان میں رہتی ہیں۔ ہرخاندان میں تین قسم کی مکھیاں پائی جاتی ہیں۔
شہد کی مکھیاں اپنے لیے ایسا چھتا یا اپنا گھر بناتی ہیں۔ جسے دیکھ کر انسا ن حیران رہ جاتاہے اورایسامعلوم ہوتا ہے کہ کسی ماہر انجنیئرنے اس کی ڈیزائننگ کی ہو۔ اس چھتے کا ہر خانہ چھ پہلو والا یعنی مسدس ہوتا ہے جس کے تمام ضلعے مساوی لمبائی کے ہوتے ہیں اور اس طرح ایک دوسرے سے متصل یا جڑے ہوئے ہوتے ہیں کہ ان میں کہیں خالی جگہ کی گنجائش نہیں رہتی۔ انہیں خانوں میں مکھیاں شہد کا ذخیرہ کرتی ہیں اور بیرونی خانوں پر پہرہ دار مکھیا ں ہوتی ہیں۔ جو اجنبی مکھیوں یا کیڑوں کو ان خانوں میں گھسنے نہیں دیتیں۔ شہد کی مکھیاں ایک ہی خاندان میں رہتی ہیں۔ ہرخاندان میں تین قسم کی مکھیاں پائی جاتی ہیں۔
شہد کی ملکہ مکھی :
ایک مکھی ان مکھیوں کی سردار یا ان کی ملکہ ہوتی ہے جسے عربی میں یعسوب کہتے ہیں۔ باقی سب مکھیاں اس کی تابع فرمان ہوتی ہیں، مکھیاں اسی کے حکم سے رزق کی تلاش میں نکلتی ہیں اور اگر وہ ان کے ہمراہ چلے تو سب اس کی پوری حفاظت کرتی ہیں اور ان میں ایسا نظم وضبط پا یا جاتاہے جسے دیکھ کر انسا ن حیران رہ جاتاہے کہ اتنے چھوٹے سے جاندار میں اتنی عقل اور سمجھ کہا ں سے آگئی۔ مکھیا ں تلاش معاش میں اڑتی اڑتی دور دراز جگہوں پر جا پہنچتی ہیں اور مختلف رنگ کے پھلوں، پھولوں ،اور میٹھی چیزوں پر بیٹھ کر ان کا رس چوستی ہیں۔ پھر یہی رس اپنے چھتا کے خانوں میں لا کرذخیرہ کرتی رہتی ہیں اور اتنی سمجھدار ہوتی ہیں کہ واپسی پر اپنے گھر کا راستہ نہیں بھولتیں۔ راستے میں خواہ ایسے کئی چھتے موجود ہوں وہ اپنے ہی چھتا یا گھر پہنچیں گی۔ گویا ان مکھیوں کا نظم وضبط ،پیہم آمدورفت ،ایک خاص قسم کا گھر تیارکرنا ،پھر باقاعدگی کے ساتھ اس میں شہد کو ذخیرہ کرتے جانا ،یہ سب راہیں اللہ نے مکھی کے لیے اس طرح ہموار کر دی ہیں کہ اسے کبھی سوچنے اور غوروفکر کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔
ایک مکھی ان مکھیوں کی سردار یا ان کی ملکہ ہوتی ہے جسے عربی میں یعسوب کہتے ہیں۔ باقی سب مکھیاں اس کی تابع فرمان ہوتی ہیں، مکھیاں اسی کے حکم سے رزق کی تلاش میں نکلتی ہیں اور اگر وہ ان کے ہمراہ چلے تو سب اس کی پوری حفاظت کرتی ہیں اور ان میں ایسا نظم وضبط پا یا جاتاہے جسے دیکھ کر انسا ن حیران رہ جاتاہے کہ اتنے چھوٹے سے جاندار میں اتنی عقل اور سمجھ کہا ں سے آگئی۔ مکھیا ں تلاش معاش میں اڑتی اڑتی دور دراز جگہوں پر جا پہنچتی ہیں اور مختلف رنگ کے پھلوں، پھولوں ،اور میٹھی چیزوں پر بیٹھ کر ان کا رس چوستی ہیں۔ پھر یہی رس اپنے چھتا کے خانوں میں لا کرذخیرہ کرتی رہتی ہیں اور اتنی سمجھدار ہوتی ہیں کہ واپسی پر اپنے گھر کا راستہ نہیں بھولتیں۔ راستے میں خواہ ایسے کئی چھتے موجود ہوں وہ اپنے ہی چھتا یا گھر پہنچیں گی۔ گویا ان مکھیوں کا نظم وضبط ،پیہم آمدورفت ،ایک خاص قسم کا گھر تیارکرنا ،پھر باقاعدگی کے ساتھ اس میں شہد کو ذخیرہ کرتے جانا ،یہ سب راہیں اللہ نے مکھی کے لیے اس طرح ہموار کر دی ہیں کہ اسے کبھی سوچنے اور غوروفکر کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔
ہر چھتے میں صرف ایک ملکہ مکھی (مکمل مادہ) ہوتی ہے۔ چھتے میں جنسی طورپر نموپانے والی مکھی صرف ملکہ مکھی ہی ہوتی ہے۔ اسکی ز ندگی کامقصد انڈے دینا اورخاندان کوقائم رکھنا ہوتا ہے۔ لمبوترے پیٹ اورچھوٹے پروں کی وجہ سے اس کو باآسانی پہچان سکتے ہیں۔ کارکن مکھیاں ملکہ مکھی کی پیدائش کے لیے 2دن کے مخصوص لمبوترے سیل میں رائل جیلی پرپلنے والے لاروے کا انتخاب کرتی ہیں۔ اور یہ 11 دن کے بعد اپنے انڈے یا سیل سے برآمد ہوتی ہے۔ اس کے بعد یہ 18نکھٹو مکھیوں(نر)کی ایک جماعت کے ساتھ جفتی کرتی ہے اوراس جفتی کے دوران یہ انڈے بنانے کے لیے لاکھوں جرثومے حاصل کرتی ہے ،جن کو یہ اپنی دو سالہ عمر کے دوران استعمال کرلیتی ہے۔ جفتی کے دس دن بعد ملکہ مکھی انڈے دینا شروع کردیتی ہے۔ یہ روزانہ3000 کے قریب انڈے دے سکتی ہے۔ تمام زندگی میں200,000انڈے دے سکتی ہے۔ ملکہ مکھی 3 - 4 سال تک زندہ رہ سکتی ہے۔ یہ اپنے جسم سے فیرومون خارج کرتی ہے۔ جسکی وجہ سے کارکن مکھیوں کو ملکہ کی موجودگی کااحساس رہتا ہے۔
کارکن مکھیاں :
یہ ملکہ اورنکھٹوں سے جسامت میںچھوٹی ہوتی ہیں۔ جنسی طور پرمادہ 32کرو موسم والی مگرانڈے دینے کی صلاحیت سے محروم ہوتی ہیں۔ کیونکہ لاروے کے مرحلے پران کو معمولی خوراک دی جاتی ہے۔ چھتہ بنانا،اسکی صفائی،حفاظت،پھولوں سے رس چوسنا، لاروے اور ملکہ کو خوراک دینا وغیرہ سب کاموں کی ذمہ داری اس پرہوتی ہے۔ عام طورپر ایک کارکن مکھی ایک دن میں تقریبا 10بار پھولوں کا رس چوسنے جاتی ہے۔ ایک پونڈموم بنانے کے لیے ایک کارکن مکھی تقریبا 8کلو شہد کھاتی ہے گرمیوں میں ان کی عمرتقریبا ڈیڑھ ماہ اورسردیوں میں چھ ماہ تک ہوتی ہے۔
نکھٹو :
(نرشہد کی مکھی)۔ نر مکھیوں کو نکھٹو کہا جاتا ہے۔ ان کی آنکھیں اور پر بڑے ہوتے ہیں۔ پیٹ گول اور سیاہ رنگ کا ہوتا ہے عموما نکھٹوچارماہ سے ذیادہ زندہ نہیں رہتے۔ یہ بےکاررہتے ہیں یعنی چھتے کی تعمیر،دیکھ بھال یا خوراک کو اکٹھا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں۔ اور یوں کارکن مکھیوں کا ہاتھ نہیں بٹا سکتے۔ زبان نہ ہونے کی وجہ سے یہ کارکن مکھیوں کی فراہم کردہ خوراک پرپلتے ہیں۔ اس طرح نکھٹووں کامقصد حیات ملکہ مکھی کے ساتھ جنسی ملاپ ہے۔ جونکھٹو اپنا مادہ افزائش ملکہ مکھی کے جسم میں داخل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ وہ بعد ازاں مرجاتے ہیں۔ چھتے میں خوراک کا وافر ذخیرہ موجود ہوتاہے توتب کارکن مکھیاں انکی پرورش کرتی رہتی ہیں۔ اورجب غذا کی قلت کم ہوجائے تو کارکن مکھیاں انہیں چھتے سے باہرنکال دیتی ہیں جس سے یہ مرجاتے ہیں۔ نکھٹو مکھیوں میں کرو موسم کی تعداد باقی دونوںاقسام سے آدھی یعنی16ہوتی ہے۔